Posts

Cancer

Doctor handed over the report to them. Faking a professional smile he said "Don't worry... its 85 to 90% curable, please decide soon, so that the treatment can be started immediately, its just stage-2" his eyes were hopeful. They left his room silently.  He was unable to drive, but she was all calm, looking somewhere but her pupils focused on NOTHING, or may be she was just looking inside herself. He turned the car to the silent lane and stopped under a big tree, shadowing them all-over, "D..on..t" his voice trembled terribly, he paused, cleared his throat and tried again... "Don't worry, we'll see the best Oncologist and you'll be perfectly fine, in-shaa-Allah!" "No!" Hannah said firmly "and you know that." Something broke inside him he was afraid of this... somehow. "You know I've always wanted to get rid of this life, Im glad that I don't have to do much for it-NOW" her voice had no

آج کی رات اور یادیں!

عجیب دن ہے! بعض دن ہوتے ہیں جو بہت اچھے ہوتے ہیں اور چند دن بس اتنے اچھے نہیں ہوتے۔ آج کا دن ان دونوں کیفیات کا امتزاج ہے۔ حیران کن؟ ہاں حیران کن طور پر! میں نے زندگی اور دنیا کو سمجھنے پر بمہ ہوش و ہواش تین دہائیاں گزاری ہیں (پتا نہیں زندگی بھی گزاری ہے یا بس گزر گئی ہے؟) مگر دراصل میں نے اس سے کہیں زیادہ دہائیاں بلکہ صدیاں جی ہیں۔ جی میں ایک بڈھی روح ہوں! میں نے امی جان کی انگلیاں تھام کر چھ یا سات دہائیاں بسر کی ہیں، یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ میری انگلیاں تھامے مجھے لاہور سے پرانے لاہور، اس میں دھڑکتے مزنگ کی گلیوں میں لے جاتیں اور پھر میں نے انکا ہاتھ تھامے جالندھر کی بستی درویشاں میں بھی کئی شامیں بتائیں ہیں جن میں جوان لڑکے کنویں کے اندر کی طرف منہ کر کے سہگل کے گیت گنگناتے تھے، اور کالی گھاٹی سے اوپر نیچے آتے جاتے کئی دن گزارے ہیں، جہاں بھیروں کا مندر تھا۔ ان کا ہاتھ پکڑے، ان کے قدم سے قدم ملاتے میں بستی میں موجود قوالوں کے گھر مہندی کے پتے بھی لینے گئیں ہوں، یہ کوٹھی/حویلی نصرت فتح علی کے بڑوں کی تھی، جو بعد میں ہجرت کر کے فیصل آباد آگئے تھے ۔ پھر وہ جادوئی کردار "کبی

خائن!!!

" میرے لئے چکلےپر بیٹھی ہر وہ رنڈی قابل عزت ہے جسے اپنی کمائی حلال کرنی آتی ہو، اور ہر وہ مولوی قابل نفرت ہے جو ممبر پر بیٹھا اپنی روزی حرام کر لیتا ہے "  پروفیسر زیغم کے اتنے کھلے تجزیے پر پوری جماعت چونک اٹھی۔ چند لڑکوں نے سوچا کہ پروفیسر ننگے الفاظ استعمال کر کے لڑکیوں کو اپنی فہم و فراست کا قائل کرنا چاہتا ہے، آجکل کی لڑکیاں بے باک آدمیوں کو پسند کرتی ہیں، کھلی ذہنیت آج کے دور میں بےشرم الفاظ کی محتاج ہے۔ بعض کا خیال تھا کہ واقعی ان کی بات میں دم ہے۔ چند لڑکیاں ابھی محو حیرت ہی تھیں، جنہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اور چند لفظ " رنڈی " کے مفہوم سے ہی ناآشنا ٹھہریں۔ ایک نے تو دوسری   کے رجسٹر پر لکھا " رنڈی کیا ہوتا ہے"   اس نے لکھا " ایک گندی عورت "  جواب آیا " اس کے کپڑے گندے ہوتے ہیں؟ " " ارے بدھو بازاری عورت، جسم فروش "  پہلی گھبرا گئی " وہ کیسے عزت