خائن!!!

"میرے لئے چکلےپر بیٹھی ہر وہ رنڈی قابل عزت ہے جسے اپنی کمائی حلال کرنی آتی ہو، اور ہر وہ مولوی قابل نفرت ہے جو ممبر پر بیٹھا اپنی روزی حرام کر لیتا ہےپروفیسر زیغم کے اتنے کھلے تجزیے پر پوری جماعت چونک اٹھی۔ چند لڑکوں نے سوچا کہ پروفیسر ننگے الفاظ استعمال کر کے لڑکیوں کو اپنی فہم و فراست کا قائل کرنا چاہتا ہے، آجکل کی لڑکیاں بے باک آدمیوں کو پسند کرتی ہیں، کھلی ذہنیت آج کے دور میں بےشرم الفاظ کی محتاج ہے۔ بعض کا خیال تھا کہ واقعی ان کی بات میں دم ہے۔ چند لڑکیاں ابھی محو حیرت ہی تھیں، جنہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اور چند لفظ "رنڈی" کے مفہوم سے ہی ناآشنا ٹھہریں۔ ایک نے تو دوسری  کے رجسٹر پر لکھا "رنڈی کیا ہوتا ہے"
 اس نے لکھا "ایک گندی عورت
جواب آیا "اس کے کپڑے گندے ہوتے ہیں؟"
"ارے بدھو بازاری عورت، جسم فروش
پہلی گھبرا گئی "وہ کیسے عزت دار ہوسکتی ہے، اس کی تو کوئی عزت نہیں ہوتی
" میرا سر مت کھاؤ اپنے عالم فاضل سر سے پوچھو
" اچھا بتاؤ چکلہ کیا ہوتا ہے؟
" میری ماں میں نے بازار حسن پر پی۔ایچ۔ڈی نہیں کی ہوئی، جان چھوڑو!"

"آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس بات کا آج کے موضوع سے کیا تعلق ہے؟" پروفیسر کی آواز گونجی تو رجسٹر پر ہونے والی اہم گفتگو رک گئی، جماعت ہماتنگوش تھی، سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"ہم بات کر رہے ہیں ایک صادق اور امین حکمران کی، جو کہ ایک ملک کا قانونی طور پر منتخب سربراہ ہوتا ہےایم۔اے سیاسیات کی جماعت میں آج سے پہلے اتنے خاموشی کبھی نہ تھی اور نہ ہی کبھی کسی طالبعلم نے، خاص کر کسی لڑکے نے پروفیسر زیغم کی کسی بات پر اتنی توجہ دی تھی۔ اب تو شک پڑ رہا تھا کہ پروفیسر نے ان الفاظ کا چناؤ جماعت کی مکمل توجہ حاصل کرنے کے لئے ہی کیا تھا۔

"دیکھیں ہر انسان کے ذمے چند کام ہیں، بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ چاہے کوئی رشتہ ہو یا پھر کوئی عہدہ یا ذریعہ معاش، مثلا" ماں کے ذمے ہے بچے پیدا کرنا ان کی پرورش اور تربیت، باپ جو گھر کا سربراہ ہے، اس کا کام ہے اپنے کنبے کی ہر جائز ضرورت کو پورا کرنا، ایسے ہی دوکاندار کا کام ہے مال کو اس کے صحیح دام پر بیچنا اور کسی قسم کی ملاوٹ اور خیانت نہ کرنا۔ ایک معلم کا کام ہے علم کی بغیر ملاوٹ ایمانداری کے ساتھ طلبہ تک منتقلی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، بے شمار کام ان گنت لوگوں سے وابستہ ہیں، جن کا شمار ایک کلاس میں ذرا مشکل ہے" پروفیسر زیغم نے چند لمحوں کا توقف کیا اور بولے" یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریاں صحیح سے نباہ رہے ہیں؟ بلکہ کیا ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے واقف بھی ہیں؟ کیا میں بحیثیت معلم اپنی پیشہ ورانہ اور اخلاقی ذمہ داری بہتر طور پر نباہ رہا ہوں یا پھر کولہو میں بندھے بیل کی طرح بس جتا ہوا ہوں شب و روز کا چکر پورا کرنے۔ اور یہ ہی سوال ہم سب پر لاگو ہوتا ہے، نچلے طبقے سے لے کر شاہوں اور حکمرانوں تک۔ اس سوال کا جواب نا صرف ہماری آنکھیں کھولتا ہے بلکہ اس جواب کی تلاش ہماری منجمد زندگیوں میں لگن کے بیج بوتی ہے۔۔۔ کہ ہم اپنا مقصد حیات جانیں اور اپنا کردار اس دنیا میں بخوبی نبھائیں۔ پر دراصل صورت حال بالکل ہی اس کے برعکس ہے، ہم سب اپنی حیات کے مقصد سے لاتعلق ہونے کے ساتھ ساتھ خائن بھی ہیں۔۔۔ جی ہم سب خائن ہیں۔ خیانت ہم سب کا پیشہ ہے، معلم علم کی تدریس میں خیانت کرتا ہے تو طالبعلم علم کے حصول میں۔ دوکاندار اجناس میں ملاوٹ کر کے، کم تول کر اور مال مہنگے داموں بیچ  کر خائن بن جاتا ہے تو تاجر منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کر کے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ چلتے چلتے حکمرانوں تک پہنچ جاتا ہے، وہ بھی غلط ذریعوں سے اقتدار حاصل کر تے ہیں اور پھر اپنے سر پڑی ذمہ داری میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ناصرف اپنی روزی حرام کرتے ہیں بلکہ عوام کے حقوق سے غفلت برت کر اس خیانت کے تسلسل کا ناطہ پھر سے نچلے طبقے تک جوڑ دیتے ہیں۔ بس اس طرح خیانت کا یہ چکر پورا ہوجاتا ہے اور ہم جانے انجانے اس کا حصہ بنے اس میں گھومتے رہتے ہیں۔ رشوت، چوری، زنا اور نا جانے کون کون سے گناہ ہماری زندگیوں میں سرائیت کر چکے ہیں جن تمام کی جڑ یہ ہے کہ ہم سب خائن ہیں۔ اپنی امانتوں، یعنی اپنی ذمہ داریوں میں خیانت کرنے والے۔ اور اس عالم میں "صادق" اور "امین" حکمران کی تلاش اور تمنا بے معانی لگتی ہے۔۔۔ اس پر سوچیں اور جواب دیں، مجھے نہیں بلکہ اپنے آپ کو۔۔۔"
کلاس میں بالکل خاموشی تھی سب ہی گہری سوچ میں تھے۔
"ڈاکٹر ہو، منشی ہو، وکیل ہو یا فقیر سب کے سب ہی خائن نظر آتے ہیں حتی کہ اپنا آپ بھی، ہے نا؟ اب سوچیں کہ صادق کے ساتھ ساتھ امین ہونے کی شرط کیوں لازم ہے؟ وہ اس لئےکہ ایک شخص جو سچ بولے، حق کی بات کرے اور ساتھ میں خائن بھی نہ ہو، نہ اپنی سوچ میں، نہ اپنے لین دین میں، نہ اپنے شخصیت میں اور نہ ہی اپنی ذمہ داری نبھانے میں۔۔۔ تو پھر میں کلاس کے اختتام سے پہلے اس چکر کو مکمل کر کے وہیں سے جوڑتا ہوں جہاں سے بات شروع کی تھی کہ امین ہو تو بازاری عورت بھی ایک خائن عالم سے کہیں درجے بہتر ہے۔"

کلاس کا وقت ختم ہوچکا تھا پروفیسر زیغم راہداری سے نکل کر سیگرٹ سلگاتے ہوئے سٹاف روم کی طرف چل دئیے۔ باقی کلاس بھی آہستہ آہستہ باہر نکلی، سب کے چہرے ایسے لگ رہے تھے کہ جیسے آج سب کو تازہ ہوا کی ضرورت ہو، بس!


         ٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭
#ھدیٰ نامہ

Hudanama#

Comments

  1. واہ! مزہ آگیا پڑھ کے.. بہت خوب

    ReplyDelete
  2. Agar sab yeh baat samajh jaen tau kia hi baat hai

    ReplyDelete
  3. Too good, seriously Huda your writing style is improving so much. Loved the concept of this afsana and the moral too. Great job :)

    ReplyDelete
  4. Chaa gayi hain aap 👏👏👏

    ReplyDelete
  5. Hosh hila diye hain ap ne. Bohat khoob 👏👏👏

    ReplyDelete

Post a Comment

Welcome to #HudaNama!
Leave your precious feedback, much appreciated.
If you have a nasty comment please keep it to yourself as I am meditating! :p